Pages

Tuesday 14 November 2017

blasphemy law اور آسمان سے گرے پٹواری



ویسے پٹواریوں بیماریوں کی سختی کے دن ختم ہونے میں ہی نہیں آرہے بیچارے۔ آسمان سے گر کے کھجور میں ایسے اٹکے ہیں کہ نہ وہاں چھلانگ لگا پارہے ہیں نہ ٹہر پا رہے ہیں۔ لیکن چونکہ اسٹائل بھی کوئی چیز ہوتی ہے لہذا وہاں بیٹھے ہی ایسے ڈیزائن مار رہے ہیں جیسے بہت ہی مزے میں ہوں۔ لیکن کب تک آخر کب تک اچانک پھٹ پڑتے ہیں۔ بالکل اس موٹی آنٹی کی طرح جو فوٹو میں سمارٹ نظر آنے کے لئے پوری سانس اندر کھینچ کے کھڑی ہو اور فوٹو گرافر کہیں اور بسی ہوجائے اور وہ اپنے ہی سانس کے پریشر تلے آ کر دھڑام سے نیچے جا گرے۔ ہائے بیچارے ہمارے عقلبند پٹواری پونے دو روپے کی تالیاں تم لوگوں کی لاجکس کے لئے اس کے بعد یہ بتانا تھا کہ یہ تم لوگوں کے حواسؤں پر کپتان کب سے سوار ہونے لگے۔ بولے تو کہاں گیا وہ سارا تجربہ جس کے چرچے سن سن کر ہمارےکان تقریبا پک جاتے جو ہم نے غور کیا ہوتا تم لوگوں کی فضولیات پہ۔ 
کسمے آجکل مجھے اچھا خاصا ترس آجاتا ہے تم لوگوں پہ۔ پہلے پوچھ پوچھ کے گلا خراب کر لیا کہ کیوں نکالا؟ جب مرضی ہماری جیسا ریسپانس دیا تو خود ہی تنخواہ نہ لینے والا جواب گھڑ لیا۔ اس ناراض بہو کی مانند جو ناراض ہو کہ میکے جا بیٹھتی ہے اور جب کافی عرصہ کوئی منانے کے لئے نہیں جاتا تو بھینس کی دم سے لٹکے چلے آتی ہے یہ شور کرتی کہ میں کب آرہی تھی یہ تو بھینس مجھے کھینچے لا رہی ہے۔ کیا؟؟ مثال فٹ نہیں بیٹھ رہی؟ تو تنخواہ والی بات فٹ بیٹھ رہی تھی؟ نہیں نا ؟ ہم نے بھی تو سنی ہی نا۔ خیر آپ سب سے اظہار محبت کی تازہ وجوہات پہ بات کرتے ہیں۔ تو ہوا کچھ یوں کہ نانی نے خصم کیا برا کیا کر کے چھوڑا اور بھی برا کیا والا سین ہو رہا ہے تم لوگوں کے ساتھ۔ حساس ایریاز میں گھسے برا کیا کر کے مکر گئے اور بھی برا کیا۔ پر سب سے برا تب ہوا جب کرائے کا پالتو داماد چھوڑ دیا۔ یعنی اب مہرالنساء کے ابو ہی رہ گئے تھے ہمیں بھاشن دینے والے۔ پیارے پٹواریو اپنے داماد کو اور اپنے وزیروں کو یہ تو سمجھایا ہوتا کہ مسئلہ کسی کے عقیدے میں نہیں ہے نہ ہمیں کسی کے مذہبی عقائد سے کچھ لینا دینا ہے۔ مسئلہ ان کا ہمارے عقیدے میں گھسنے میں ہے۔ نہیں سمجھے نہ۔ 
نہیں سمجھے ہوں گے۔ ٹہرو بھیا سمجھاتی ہوں۔ وہ یوں کہ ہم نے یعنی آنسہ سحرش عثمان نے ایک عدد آرگنائزیشن کے ساتھ ایز والنٹیر دوسال کام کیا۔ اپنی جان ماری اپنا بیسٹ دیا تھوڑا بہت دماغ لڑا کہ ایک پراجیکٹ بھی منظور کرا لیا آرگنائزیشن کے لئے۔ لیکن ایک دن ہم یونہی اکتا گئے جی اوب گیا آرگنائزیشن کو،لات ماری اور گھر چلے آئے۔ پھر لگے منصوبے بنانے اپنی آرگنائزیشن بنانے کے۔ اب بظاہر تو ہمارے مقاصد ایک سے تھے۔ آرگنائزیشن کے اصول و ضوابط بھی پتا تھے۔ سو ہمیں ان کا نام استمال کر لینا چاہیے تھا نا؟؟ کیا؟؟ نہیں کر سکتے کسی آرگنائزیشن کا نام اور لوگو؟ کیا ہو گیا بھئی بس ذرا سے ہی تو اختلافات تھے پھر بھی ایسا ۔کٹر رویہ ایسی انتہاء پسندی ایسی تنگ نظری۔۔۔۔ چچ چچچ آپ سے روشن جیالوں سے توقع نہیں تھی اسکی۔ کیا کہا یہ اصول ہے دنیا کا؟ تو بھئ صاف سیدھی بات ہے۔ تم لوگ اپنی دنیاوی آرگنائزیشن کا نام مجھے استمال نہیں کرنے دیتے۔ اور ہم تم لوگوں کو اپنے حساس ایریا میں گھسنے دیں؟ صدقے بھی آپ لوگوں کی ایکسپیکٹیشنز۔۔ بات سنو تم لوگوں کو پتا ہے برطانیہ میں پروٹسٹنٹ فرقے والے شاہی خاندان کا حصہ نہیں بن سکتے۔ ہولوکاسٹ پہ بات کرنا جرم ہے۔ وہ کیا نازی کیمپس بنائے تھے ہٹلر نے آج بھی ان پر کچھ کہنے سننے کی تحقیق کر کے آؤٹ آف دا باکس سوچنے کی آزادی نہیں میسر کسی کو۔ تو پھر ہم ہی سے ۔۔روشن خیالی۔۔ کی توقع کیوں ؟ جب ہر قوم ہر مذہب کا حساس ایریا ہے اور وہاں گھسنے کی آزادی نہیں کسی کو تو پھر ہمارے ہی عقیدے کو غریب کی جورو کا درجہ دینے پر تلے رہتے ہو تم لوگ؟ اور کوئی بات نہ ملے تو کہنے لگتے ہو عمران خان چپ ہے اس نے ردعمل نہیں دیا۔ تو بھئ مجھے اپنے عقیدے کی تکریم کرنے کے لئے عمران خان کے رد عمل کی حاجت نہیں ہے۔ اور نہ ہی ایسے عقل کے اندھے سپورٹرز ہیں کپتان کے کہ اتنے اہم معاملہ پر رائے کے لئے کسی کا انتظار کریں۔ ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے رہے گا ہمیشہ چاہے دنیا ہمیں انتہاء پسند سمجھے چاہے بنیاد پرست۔ شائد یہ جذباتی گفتگو لگے روشن خیالوں کو۔۔۔پر کیا کریں جذبات کے بغیر محبت نہیں ہوتی نا۔۔نہ اس کا اظہار۔

No comments:

Post a Comment