Pages

Sunday 28 May 2017

سائیکاٹرسٹ کو ملنے کا وقت ہوا چاہتا ہے


خدا جانے یہ تخیل ہے یا پاگل پن یا پھر دماغ میں چل رہے کسی کیمیکل لوچے کا کیا دھرا۔ یا پھر اس ہمہ وقت آوارگی پر آمادہ دل کا دوش ہے یہ سب۔

یہ فیصلہ کرنے میں شدید مشکل کا سامنا ہے آج کل

کبھی کبھی یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ میں دماغ کی بجائے دل سے سوچتی ہوں__ہاں، دل سے بھی تو سوچا جا سکتا ہے ۔ بلکہ ہم سب ہی کہیں نہ کہیں تھوڑا تھوڑا دل سے سوچتے ہی ہیں۔ جب ہم دوست بناتے ہیں۔آپ خود ہی بتائیے دماغ سے سوچا کریں تو بھلا ایسے دوست ہوں ہمارے؟؟

میرے بھی دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کسی روز شام کے وقت آنکھیں بند کروں اور کھولوں تو کسی ستارے پر پاؤں لٹکا کر بیٹھی دور بسی دنیا کو دیکھتی رہوں۔ گریوٹی کی حد سے باہر نکل کر کسی آوارہ چاند سے اٹھکیلیاں کروں۔ ایک ستارے سے دوسرے ستارے کا درمیانی فاصلہ طے کرنے کے لیے رین بو سا ایک لوپ ہو۔جس میں شب ڈھلے سلور گرے کے سارے شیڈز ہوں،،جس پر میں پاؤں رکھوں تو چاندنی سے پیر اٹ جائیں۔ اور جب کبھی ستارے کے درمیاں ہی ٹھہر کر خاموشی سے گیلکسیز کا ساز سننے کو جی چاہے تو رین بو کے اسی لوپ کو الٹا  کرلوں اور اس کی پینگ پر جھولا جھولوں۔ جب مستی میں سر پیچھے کو جھکا کر جھولا تیز جھلاؤں تو بے خیالی میں پاؤں سامنے سے آتے کسی سیارے سے ٹکرا جائیں۔ وہ مجھے گھور کر دیکھے تو میں گھبرانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے سوری کہوں۔ وہ سر جھٹک کر اپنی راہ لے تو کھلکھلا کر ہنس پڑوں۔

کسی ستارے سے دوستی کروں۔۔۔۔ گہری دوستی۔ پھر اس سے پوچھوں دن میں کہاں جا چھپتے ہو؟ اور کیوں؟ کیا سورج کی تپش تمہارا کمپلیکشن خراب کرتی ہے؟ کیا دن میں تمہی‍ں آرام کرنا ہوتا ہے؟ تمام شب چمکتے رہنا۔ہر روز چمکنا بھی ڈیوٹی کی طرح لگتا ہوگا نا تمہیں۔

کسی کہکشاں پر چلوں۔ اس کے رستے میں آنے والی سفید لکیر کا راز تلاش کروں۔

جب تم سے روٹھ جاؤں تو غصے میں کہکشاں کے پیچھے چھپ جاؤں۔ تم ڈھونڈنے آؤ تو ڈھیر ساری سٹار ڈسٹ تمہارے اوپر ڈال دوں۔ تھوڑی سی سٹار ڈسٹ تمہاری آنکھ میں بھی چلی جائے۔ تم آنکھ پر ہاتھ دھرے ریلیف کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑو تو میں ناراضگی بھول بھال کر چاندنی کی پٹی پر اڑتے بادلوں میں سے روئی چرا کر دو بوند بارش ٹپکا کر اسے صورتِ مرہم تمہاری آنکھ پر رکھ دوں۔ اور تم سارا دن، میرا مطلب ہے تمام رات یونہی پائیریٹ بنے گھومتے رہو۔ اور میں اپنے دوست ستاروں سے یوں تعارف کرواؤں

میٹ مائے پائیریٹ

سنو! تم پائیریٹ بن کے بہت کیوٹ لگو گے۔۔۔۔ جانی ڈیپ سے بھی زیادہ کیوٹ۔

ویسے اگر تم پائیریٹ ہوتے  تو ہم نے گہرے سمندروں کے ان دیکھے جزیروں کے باسی ہونا تھا۔

اور پتا ہے ان جزیروں پر تو ہماری تمہاری دنیا کے ضابطے بھی نہیں چلنے تھے۔ یہاں کے اصول بھی بادر نہ کر پاتے ہمیں۔

ہم وہاں اپنا قانون بناتے۔ امن و محبت والا۔ بس محبت و عزت ہی ضابطہ ہوتا ان جزیروں کا۔

اب تم ہنسو گے نا کہ پائیریٹس کا ضابطہ محبت کہاں  ہوتا ہے۔

ہاں تووو!! پائیریٹس محبت نہیں کرتے کیا؟

محبت تو اس کائنات کا کوڈ ہے۔ یہ دنیا کی ہر تہذیب کی لوک کہانی بھلا محبت کی کہانی ہی کیوں ہوتی ہے؟

کیونکہ صرف محبت کی کہانیوں کو دوام حاصل ہے۔

محبت کی ساری کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں ۔۔۔ گہری۔۔۔ اپنے اندر سمو لینے والی۔۔۔ بظاہر خاموش،،مگر کئی داستانوں کے راز افشاء کرتی ہوئی۔

جیسے ۔۔ سالٹ رینج۔

تمہیں پتا ہے سالٹ رینج کی خصوصیت کیا ہے؟ یہاں سے ایشیا کا ہر فاتح گزرا ہے۔ لیکن تاریخ نے جو مقام جو عزت رانجھے کو دی ہے وہ ان جنگجوؤں کا مقدر کہاں۔

سکندر اعظم سے شیر شاہ سوری تک ہر کسی کے عہد کو مورخ نے سیل کے نرخوں کی طرح ڈیڑھ ڈیڑھ صفحے پر سمیٹ دیا ہے۔

لیکن رانجھے کو تو وارث شاہ کے لہجے نے ہی مکمل جلد میں سمویا ہے۔ وہ بھی آدھا ادھورا۔

سنو! تمہیں گڈریا ہونا چاہیے تھا۔

اور بلوچستان کے کسی پہاڑی گاؤں میں یا سپین کے کسی سبزہ زار میں یا پھر عرب کے صحراؤں میں۔۔۔ تم اچانک مجھ سے آن ٹکراتے اور میں آنکھوں میں سارے صحراؤں کی حیرت سموئے۔کبھی تمہاری سبز آنکھوں میں موجود الہڑ جذبوں کو دیکھتی اور کبھی تمہارے سانسوں کو بانسری میں جاتے سر بنتے ۔۔۔ تم پر دل ہار دیتی۔تمہاری بانسری کے سروں کے پیچھے میں گھر کا سکون چھوڑ کر تمہارے ساتھ صحراؤں کی خاک چھاننے نکل پڑتی۔ تم مجھے پاولو کے الکیمسٹ کے کرداروں سے ملواتے۔ کسی اداس دھن کے سُر اٹھاتے اور اسی دھن کی ایکو میں ساری کائنات تحلیل ہوجاتی۔

تم سیاح ہوتے۔۔۔۔ ہم کندھوں پر مرضی کا بوجھ اٹھائے نگری نگری گھوما کرتے۔ جنگلوں میں خیمے لگائے،چشموں کے ٹھنڈے پانیوں سے چھن کے آتی سورج کی کرنوں میں مندی آنکھوں سے شبنم کی زندگی کے آخری آخری لمحے دیکھتے۔

دن ڈھلے تم کسی سرد ٹیلے پر بیٹھے اکتارہ بجاتے۔ میں محبتوں کی کوئی ان سنی نظم تمہارے کانوں میں گنگناتی۔

پہاڑی دریاؤں کی گہرائیاں ماپتے۔

الاؤ سلگا کر آمنے سامنے بیٹھے کسی عہد رفتہ کی یاد میں گم خاموشی کی زباں میں گفتگو کرتے۔

تم بیگ سے کتاب نکال کر سیجز آف دی ایجز سناتے۔ مجھ سے فلاسفیز پر الجھتے۔ کبھی افلاطون کے یوٹوپیا پر۔کبھی ارسطو کا قانون تمہیں لا قانونیت لگتا۔کبھی جان لاک روسو کا سوشل کانٹریکٹ اور کبھی مارکس کی سرپلس ویلیو۔

اور میں تمہارے خفگی بھرے تاثرات پر مسکراتی۔ تمہیں بتاتی۔ دیکھو یہ دنیا اتنی بری نہیں ہے جتنا اسکو ہم پینٹ کر دیتے ہیں۔ تم یہ فلسفے بند کر کے کسی دن کیٹس کی اوڈز کی نظر سے دنیا کو دیکھو تو جانو۔ کبھی شیلے کی نظموں سے جھانک کر خوبصورتی کو محسوس کرو۔ یہ دنیا خوبصورت لگے گی۔ جیسے رین بو کے الٹے لوپ پر جھولا جھولتی حسینہ۔۔۔۔ جس کے پاؤں چاندنی سے اٹے پڑے ہیں۔




1 comment: