Pages

Friday 19 May 2017

میں نے لکھا ہے بھولی نہیں میں.


ہر اچھا برا فیز ،زندگی کے سارے نشیب و فراز ،سارے اونچ نیچ رویوں کے درشت لہجوں کے صحرا ، بندے کو کچھ نہ کچھ سکھا کر ہی جاتے ہیں۔ کبھی کسی موڑ پر ایسے بھی لگتا ہے کہ یہ موڑ اندھا موڑ ہے آگے کھائی ہےاور سچی بات ہے اس لمحے  تو نظر بھی کچھ نہیں آتا۔بس  کھائی ہی سجھائی دیتی ہے۔ یوں  لگتا ہے کہ اب کے ہم زندگی سے بچھڑے تو شائد کبھی خوابوں میں ہی مل پائیں۔لیکن ایسا نہیں ہوتا دھند کو بہرحال چھٹنا ہی ہوتا ہے۔ چاہے وہ غلط توقعات کی دھند ہو یا کسی غلط بندے سے صحیح روییے کی امید کی دھند۔ تو معلوم پڑتا ہے وہ ہم جسے کھائی سمجھ کے زندگی کے خوف میں مبتلا تھے۔وہ تو کسی کی بے حسی جیسا چھوٹا گڑھا تھا۔ جسے آپ ظرف کے چھوٹے سے مظاہرے سے پار کرسکتے ہیں

اور پھر اصل جنگ شروع ہوتی ہے انا اور ظرف کی جنگ۔ ظرف کہتا کہ معاف کرو۔ انا بضد ہوتی ہے کہ نہیں اب کے نہیں۔ اس بار اگلے کے کو بتاؤ کہ وہ بھی غلط ہو سکتا ہے اور اسے بتاؤ کہ میری ذات کے پندار کو روندنے کی تم سمیت کسی کو اجازت نہیں۔
ناصح ہوتی تو نصیحت کرتی، انا کو نفس سے تعبیر کرتی، پھر اس کو روندنے کا کوئی حکم خدائی، حکم بنا کر سناتی۔محبت فاتح عالم سی کوئی رنگین تتلی ہاتھ پر دھرتی، کم ظرفی بے حسی کو بھول جانے کا مشورہ دیتی۔ لمبی تقریر کے بعد فضیلتوں کے انبار لگاتی۔ شائد وقت کے حسن و رابعہ بصری ہی کا درجہ دے دیتی
لیکن کیا کروں؟ نہ میں رابعہ بصری نہ مجھے ولایت کا دعوی ہے۔نیکی کی توفیق ملے تو کر گزرتی ہوں وگرنہ پرہیز گاری کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتی۔ اور کسی غیر انسانی ظرف سے بھی کوئی لینا دینا نہیں مجھے
خود کو حساس  کہلوا لیتی ہوں۔ کبھی کبھار اس لیے نہیں کہ اپنے درد پر آنکھ بھیگ جاتی ہے بلکہ اس لیے کہ مجھے کوڑے سے کاغذ چنتا بچہ بھی انسان کا بچہ لگتا ہے اور گھر مدد کے لیے آنے والی خاتون مجھے اپنے جیسی لگتی ہے۔اس کی بیٹی کو بھی میں کسی خانے میں تقسیم نہیں کرتی اور میں کام آنے سے پہلے لوگوں کے عہدے نہیں دیکھتی نہ ہی عہدوں سے تعلق مجھے فخر میں مبتلا کرتے ہیں۔ سو یہ اگر حساسیت ہے تو میں بھی ہوں اگر نہیں تو لوگ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے میں بے وقوف اور نالائق ہوں
تو سین یہ ہے کہ یہ بے وقوف اور نالائق لڑکی تسلیم کرتی ہے کہ اسے اب لوگوں کو ان کی زبان میں جواب دینے میں اگر عار ہے تو اب وہ ظرف کے کسی مظاہرے کی قائل نہیں رہی
اگر کوئی بے حسی کا جواب بے حسی سے نہیں دے سکتا تو بھی اسے پورا حق حاصل ہے کہ وہ کم ظرفوں سے کنارا کر لے۔ یہ قطعی ضروری نہیں کہ جہاں تیز دھوپ پاؤں جلانے لگے وہاں پلکیں بچھائی جائیں
ایسا بھی کوئی صحیفہ زمین پر نہیں اترا کہ ذات کے غرور میں مبتلا شخص کے غرور کو آپ کی مسکراہٹ گنے کا رس سمجھ کر پلائے جائیں
بھئی ہوگی محبت فاتح عالم۔ لیکن ہر بے حس کو فتح ہم ہی کیوں کریں؟ اب کے وہ بھی تو آئے اپنے لفظوں پر غور کرے وہ جسے "مہرباں" ہونے کا دعوی ہے.جسے خود پر خدائی فوجداری کا گماں گزرتا ہے
جس کو اپنے دل پر ناز ہے ، اب کے اسے اپنی ہی دھڑکنیں آزمانے دیجیے۔جسے اپنے لہجے میں بات کرنا پسند ہے اسے اب اس کا لہجہ بھی سنائیے 
جس کو لگتا ہے کہ اُس کی جنبش لب، حرف آخر ہے۔ اسے اس کے لفظوں کی بازگزشت سننے دیجیے.اور جو سمجھتا ہے اس کے خم ابرو پر دنیا چلتی ہے اسے ذرا چلا لینے دیجیے دنیا.
لوگوں کو اپنے حرفوں کے ذائقے چکھنے دیجیے 
بدلہ نہیں لینا چاہتے ،مت لیجیے معاف کرنا چاہتے ہیں ضرور کیجیے
لیکن بھول کر بھی بھولیے مت۔تاکہ اگلی بار اسی سوراخ سے ڈسے نہ جائیں
اور مجھے اس "فیز" نے یہ ہی سکھایا ہے کہ بھولنا نہیں.
آپ نے پڑھا؟؟ میں نے لکھا ہے بھولی نہیں ہوں میں.

No comments:

Post a Comment