Pages

Saturday 7 October 2017

ڈائجسٹکل اسٹرائک


اس نے اپنے گھنے لمبے گھنگریالے کالے سیاہ بالوں کو یونہی کندھوں پر پھیلایا پرفیوم سپرے کیا اور کمرے سے باہر چل پڑی۔
لاؤنج میں۔پہنچ کر اسے احساس ہوا کے کندھے سے جھولتا کرش کیا ہوا ہلکے گلابی رنگ کا دوپٹہ زمین بوس ہونے کو ہے۔لاپرواہی سے دوپٹہ دوسرے کندھے پر ٹکاتے ہوئے علیشہ احمد کچن کا رخ کیا۔
ہلکے سر مئی رنگ کی قمیض میں اس،کا گندمی رنگ تمتا رہا تھا۔
پوچھنا یہ تھا کہ گھنے لمبے گھنگھریالے بال کندھوں پر کیسے پھیل جاتے ہیں؟
ادھر تو گھنگریالے بال ہمیشہ جنگل کا سا سماں پیش کرتے ہیں۔
اور اگر کبھی بھولے سے کھلے چھوڑ دیں تو خاندان کا بچہ بچہ جگت لگاتا ہے گھونسلے کے سر والی۔ ہلکے گلابی اور ہلکے سر مئی رنگ یعنی لائٹ پنک اور سلور گرے میں گندمی رنگ خاک تمتماتا ہے۔
اچھا خاصا فئیر کلر گہرا لگنے لگتا ہے کچھ غلط کہا ؟۔
گندمی کہاں سے تمتائے گا۔یعنی حد ہوگئی عوام کو بے وقوف بنانے کی۔
پھر کچن میں بھی کھلے بالوں کے ساتھ۔۔۔اللہ جانے اس علیشہ احمد کو کوئی سمجھاتا کیوں نہیں کچن میں جانے کے کیا طور طریقے ہوتے ہیں۔
کوئی اس شوخی کو یہ بھی نہیں کہتا ہوگا کل نو سوہرے جا کہ میرے چاٹے ایچ سواہ پائیں گی۔۔
میسنی سی ہے اب ہماری طرح صاف گو تو ہوتا نہیں کوئی کہ واپس کہہ دے سوہریاں دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہو۔
Reality
یہاں تو چائے/کافی بنانے لگے بنداتو سارے گھر کو خوشبو پہنچ جاتی ہے۔اور چھ سات کپ بنائے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔
اور ادھر وہ علیشہ احمدآدھی رات کو کیک بیک کر آئسنگ کر کافی بنا کر دبے پاؤں بڑے ابا کے پورشن میں پہنچ جاتی ہے۔عون ہمدانی کا برتھڈے سیلیبریٹ کرنے ٹرے میں لان سے سفید و سرخ گلابوں کی دو ٹہنیاں بھی توڑ کے سجا لیتی ہے۔
اور تف ہے ادھر لاکھ جتن کر لو ایلویرا بھی نہیں اگ کے دیتا کہ چلو سوٹڈ بوٹڈ ڈیشنگ سنجیدہ لمبی سی گاڑی والے عون ہمدانی کا نہ سہی چول چھچھورے شانی کا برتھڈے ہی منا لے بندا۔
یعنی حد ہی ہے
ادھر نیند کی کچی انوشے انصاری بھی صبح صبح ٹریک سوٹ پہنے پونی ٹیل کئے اسفند یار کے ساتھ جاگنگ کر رہی ہوتی ہے۔۔
اور ادھر ہم ہیں جو انسومنک ہو کہ بھی نو بجے تک بستر سے ساز باز کرتے رہتے ہیں۔
یہاں چھ سال یونیورسٹی میں گزار کے سارے شہر میں آوارہ گردیاں کر کے بھی بقول اماں کے لنڈورے گھوم رہے ہیں۔
اور اُدھر زرمینے آفریدی یونی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر شایان آفندی کی بانہوں میں جھول رہی ہوتی ہے۔
ہائی ہیلز بھی سکون سے کیری کر لینے والے لوگ کیا فالتو لگنے آئے ہیں دنیا میں۔؟
Conclusion
فار گاڈ سیک۔۔۔سوچ کو بدلیے کسی کو دیکھائی دینے کے لئے گرنا ضروری نہیں ہے۔
وہاں فلم گریویٹی والی آنٹی مارس سے اکیلے واپس چلی آتی ہے بخفاظت ہے نا ؟۔
یہاں ابھی تک عوام ہراساں آنکھوں والی انگلیاں مروڑتی کنفیوز ہرنی کو ہی آئیڈیلاز کر رہی ہے۔
یعنی ہمیں فینٹسی میں بھی مضبوط کانفیڈنٹ الفا فی میل گوارا نہیں۔
پھر سارا جہاں مل کے روتا ہے کہ خواتین بولڈ ڈیسینز نہیں لے سکتیں۔
Moralآپ لوگ اپنے معاشرے کی نارمز اچھائی کے معیار تو دیکھیں۔
اپنا ادب اس میں موجود فینٹسیزتو دیکھیں۔
جس میں خاتون کو پورے فرد کا سٹیٹس نہیں ملتا۔ بس ہر وقت فریق ثانی کو پلیز کرنے کے چکروں میں اپنی ذات کا غرور کھوتی رہتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment