Pages

Saturday 27 January 2018

میرا شہر

یہ میرا شہر ہے- اسمیں اگر آپ اسلام آباد کی طرف سے داخل ہوں گے تو ویلکم ٹو ____ سٹی کے ساتھ ہی آپکو کھوئے والی قلفیوں کی لا تعداد دوکانیں ملیں گی- جن میں سے ہر دوکان اصلی  اور  پرانی دوکان ہونے کا دعوی کرے گی-لیکن آپ نے رکنا نہیں جس دوکان کے سامنے چھ کرسیاں دو میز چار موٹے انکلز اور دس بارہ گاڑیاں کھڑی نظر آئیں بس سمجھ لیجیے یہ ہی اصلی سچی تے کھری دوکان ہے- آپ نے یہاں رکنا ہے اور قلفیاں کھانی ہیں- یاد رہے اگر آپ کا تعلق اس شہر سے نہیں ہے تو بھولے سے بھی کبھی کسی بھی چیز کا لارج جمبو یا بڑا سائز خریدنے کی غلطی مت کیجیے گا.
کیونکہ رزق ضائع ہو یہ اچھی بات نہیں-
لیکن اگر آپ لاہور کی طرف سے اس شہر میں داخل ہورہے ہوں تو شہر میں داخلے کے ساتھ ہی مہران دی برفی کی دوکان ڈھونڈیئے- دوکان کی موٹی موٹی نشانیوں میں شرٹ لیس چار عدد موٹے انکلز بیٹھے دودھ پی رہے ہوں گے- اور یہ برفی دو کلو خرید لیجیے- تاکہ بعد میں آپکو کم خریدنے پر افسوس نہ ہو-
آپ اس شہر میں کسی اور طرف سے جیسے شیخوپورہ، حافظ آباد سرگودھا منڈی بہاؤالدین وغیرہ کی طرف سے داخل ہو سکتے ہیں- لیکن چونکہ ہمارا جغرافیہ بہت ہائی لیول  ہونے کی وجہ سے ہم آپکو وہ نقشہ نہیں سمجھا سکتے-
اب آجائیے شہر کے اندر- بلکہ ٹہریئے۔۔ آپ لوگوں نے  سیالکوٹی دروازے سے ربڑی پی ہے؟؟ تو پھر کہاں منہ اٹھائے گھسے چلے آرہے ہیں جائیے واپس لمبی لائن ہے تو کیا ہوا؟ سب کھانے پینے کیلئے ہی جمع ہیں - لیجیے ربڑی درمیانے گلاس لے لیجیے اگر زیادہ برگر ہیں تو چھوٹا لے لیجیے- اوہو بھئی پی لیجیے نہیں ہے ہیوی-
اب آجائیے شہر کے اندر- یہ اچھا ہوا آپ لوگ تھوڑا جلدی آگئے- دراصل جو ناشتے والی "فوڈ سٹریٹ" ہے نا وہ  سات، ساڑھے سات بجے تک بند ہو جاتی ہے- چلیے گرونانک پورہ کی طرف موڑ لیجیے.
گرونانک صاحب ایمن آباد سے آتے ہوئے اس محلے میں ٹہرے تھے تب سے اسے گرونانک پورہ ہی پکارہ جاتا ہے- یہ اسلامیہ کالج کے ساتھ والی سڑک پر ٹرن لیں۔۔۔ نہ آگے آئیے۔۔۔ بس گڈ ہوگیا۔۔۔ پہنچ گئے ہم غنی کے پائے کھانے- یہ پوری سڑک ہر قسم کے ناشتوں کے لیے مشہور ہے- کیک پیسٹری تازہ باقر خانی سے بونگ سری پائے تک ہر چیز حسب ذوق اور حسب منشاء ملے گی- دودھ پتی سمیت پیڑے والی لسی - پیڑا مکھن اور کھوئے کا گولہ ہوتا - جو آپ کے لسی کے گلاس میں آتا ہے جسے پی کر آپ ٹن ہو جاتے ہیں اگلے کھانے تک۔۔اسے دیسی سکاچ سمجھ لیں- اب یہ بھی ڈر ہے دیسی سکاچ کے نام سے کوئی افینڈ ہی نہ کرجائے-
خیر جب جب اپنے شہر کے متعلق سوچا ذہن میں انواع اقسام کے کھانے ہی آئے-
پچھلے سال نیو یارک ٹائمز نے ہیڈ لائن لگائی تھی _____ "دی سٹی آف حافظ سعید" اور خبر کی تفصیلات پڑھ کے ایسا دل دہلا کہ بس، یعنی ہمیں اندازہ ہی نہ ہو سکا  کہ ہمارے شہر میں پیرالل عدالتیں چل رہی ہیِ جن میں گھوڑے پہ بیٹھ کے جاتے ہیں حافظ سعید اور فیصلے کرتے ہیں- حد ہی ہوگئی-ویسے یہاں حافظ سعید کی شہرت انتہائی انسان دوست کی سی ہے- ان کی تنظیم کے لوگ بھی اچھے خاصے ویل بہیوڈ لوگ ہوتے ہیِں منظم اور مستقل مزاج-
کسی زمانے میں  سہیلیوں کے ساتھ پھرتے پھراتے فوڈ سٹریٹ جا نکلے وہاں جا کر معلوم ہوا یہ ایشیاء کی سب سے بڑی فوڈ سٹریٹ ہے ہم نے آنکھیں پھیلائے سامنے پاپڑی چاٹ لگاتے انکل سے دہرا کر پوچھا ایشیاء میں چائینہ جاپان جیسے ملک بھی آتے ہیں انکل- کہنے لگے جی بیٹا جی- وہ سامنے دیکھیے ____ ان کی دوکان پر سرٹیفیکٹ لٹک رہا ہے- ہم حیران ہوتے، پاپڑی چاٹ کھا کر چکن رول کھانے دوسری دکان میں گھس گئے-
گرونانک پورہ میں ایک نان چنے کی دوکان والے انکل سے پوچھا تھا آپ کے پاس یہ دکان کب سے ہے؟ کہنے لگے دادا پردادا سے یہی کام ہے- چوتھی نسل اسی دوکان میں بوڑھی ہو رہی ہے- سامنے والے گردوارے کے لوگ ہر بیساکھی پر یہاں سے کلچے لگوایا کرتے تھے- پوچھا انکل کبھی کام بدلنے کا نہیں سوچا کہنے لگے بیٹا ہیلے کالج میں پڑھتا ہے۔ ایم بی اے کر لے گا تو اسی دوکان کو وسعت دے گا- رزق کے اڈے میں  شرم کیسی بیٹا جی-
اور اس دن مجھے اپنے شہر پر فخر ہوا تھا- ہم صرف کھاتے نہیں ہیں ہم رزق کی قدر کرنے والوں میں سے بھی ہیں-
گوجرانوالہ میں دوسری بڑی مذہبی کمیونٹی سکھ برادری ہے بیساکھی کا سب سے بڑا میلہ بھی لگتا ہے یہاں ایمن آباد کے قریب- اپریل کے شروع میں آندھیاں لے کر آتا ہے وہ میلہ-
سر کلیان ایک دن کہنے لگے ایمن آباد میں پانچ ہزار سال پرانا گردوارہ ہے- ہماری زبان کے سامنے موجود خندق نے کہا سر سکھ ازم تو سات سو سال پرانا مذہب نہیں سر معصومیت میں سر اثبات میں ہلا بیٹھے اور ہمارے قہقہے پر اپنے مخصوص انداز میں کہتے ڈیین)( ڈائن) اے پوری- تو بتانا یہ تھا کہ بہت سی عمارتیں اپنے تاریخی پس منظر اور فن تعمیر کی بدولت یہاں موجود ہیں جو اپنی پرسان حالی پر انتظامیہ سے شکوہ کناں بھی ہیں اور عہد رفتہ کی یاد بھی دلاتی ہیں-
اندرونی شہر کی تنگ گلیاں اور اینٹوں والے گھر- یا پھر ہندو طرز تعمیر والی لکڑی کی بالکونیاں شہر کے سینے میں چھپے کئی رازوں کا پتا دیتی ہیں-
کالج روڈ پہ گول گپے کھاتے کھاتے ہم نے اس شخص کو ریڑھی سے دو دوکانوں کے فوڈ کارنر پر شفٹ ہوتے دیکھا- یونہی ابا سے کہا ہمیں ہر پاکستانی کی طرح پورا یقین تھا کہ یہ ترقی چور بازاری کی مرہون منت ہے- ابا سے ڈسکس کیا تو بتانے لگے شہر میں ہر روز صبح پائیوں کے سینکڑوں ٹرک آتے ہیں ہر روز کئی من میدہ استعمال ہوتا ہے اور کئی سو بکرے ہماری خوش خوراکی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں- رنج و الم کی کسی گہری کیفیت میں مبتلا ہونے ہی والے تھے ہم کہ ابا نے بتایا شہر میں صوبے کی سب سے بڑی فوڈ انڈسٹری ہے- یعنی فوڈ آئٹمز میں سب سے زیادہ  انکم پیدا کرنے والا شہر- اس دن رب کی تقسیم پہ بڑا پیار آیا-اور اپنی بستی کے موٹے موٹے انکلز پہ بھی-
شہر کا نام تو پہچان ہی گئے ہوں گے-
گوجرانوالہ__
شہر میں خواندگی کی شرح اچھی ہے-
ساٹھ ستر لاکھ آبادی کا شہر ہے ساتواں بڑا شہر چوتھا بڑا ڈویژن-
لاہور کا ٹوین سٹی چناب کے کنارے آباد-
ملک کی تیسری بڑی نہر شہر کے بیچوں بیچ گزرتی ہے- جس کے ساتھ ساتھ گزرتی ڈائیو میں بیٹھ کہ ہم نے کئی کردار تراشے ان سے باتیں کی ہیں- پنجاب یونیورسٹی کے کیپمس سمیت چار پانچ پرائیویٹ یونیورسٹیز ہیں شہر میں- لاہور کی ٹوین سٹی ہونے کی وجہ سے گریجویٹ ٹریفک کافی ہے شہر میں-
ایف پی ایس سی کے مطابق مقابلے کے امتحانوں میں سب سے زیادہ امیدوار اسی ڈویژن سے ہوتے ہیں-
تعلیمی لحاظ سے خواتین سارے ڈیپارٹمنٹس میں چھائی ہوئی ہیں-
یادش بخیر جب سی ایم نے مختلف کیٹگریز میں مقابلے کرانے شروع کی تو پرونشل لیول پر اس شہر کی ایک ہی حسینہ ڈیبیٹ مضمون وغیرہ میں سرٹیفیکٹ لیتی رہی- اب بھی اگر کسی کو اس حسینہ کا نام جاننا ہے تو اسے دیوار کے ساتھ کھڑا ہوجانا چاہیے- ہاتھ اٹھا کر-
انڈسٹریل سٹی ہونے کی وجہ سے میل چائلڈ بچپن سے بزنس مائئنڈ سیٹ کا نمائندہ لگتا ہے-
پنجاب میں کیمیکل انڈسٹری کے اولین دنوں میں گوجرانوالہ کا سعودیہ اور چائنہ سے کیمیکل امپورٹ ایکسپورٹ کا سب سے بڑا معاہدہ ہوا تھا جو بعد میں میلا مائن انڈسٹری کی بنیاد بنا اور اب یہ انڈسٹری شہر کی فنانشل بیک بون کا کام دیتی ہے- کھانے کے علاوہ جو کام اس شہر میں ذوق و شوق سے کیا جاتا ہے وہ کھانے کے متعلق سوچنا ہوتا ہے-
ہر مٹھائی حلوے کا الگ سپیشلسٹ حلوائی شہر میں موجود ہے-
سیلمان والوں کے حلوے
سیالکوٹیوں کے رس گلے حلوہ پوری پھینیاں
جالندھر والوں کے گلاب جامن اور قلاقند
لالہ والوں کا پتیسہ اور چم چم
اور مہراں دی برفی-
میر والوں کی کوکیز
النور کے کیکس
بابا والوں کے سیلڈز
یعنی ہر چیز کا الگ سپیشلسٹ لیکن کم معیاری چیز بھی ویسے ہی بک جاتی ہے- اسے کہتے ہیں سچی محبت- کھانے سے-
ہم رزق کے قدردانوں میں سے ہیں- اسی لیے شائد رب وافر کھانے والوں کو وافر رزق دے رہا ہے۔ شہر میں کھانے کی اس بہتات نے اوبیسٹی کا گل کھلا رکھا ہے ہر پانچھواں شخص اوبیز ہے- کولیسٹرول اور ڈائیبٹیز والے انکل آنٹیاں وافر مقدار میں ملتی ہیں جو ڈاکٹر اور پرہیز دونوں کے لتے لیتے ہوئے پائے جاتے ہیں-
خوش خوراک خوش مزاج بھی ہوتے ہیں لہذا مجموعی طور پر شہر میں دنگا و فساد کم ہوتا ہے ہردوسرا شخص جگت کرتا ملتا ہے- امان اللہ، سہیل احمد کا شہر ہے-
سیاسی لحاظ سے نون لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے- حالیہ سیاسی معاملات نے نئے اور نیوٹرل ووٹر کو کافی متاثر کیا ہے-
سیبایم نے سڑکوں کا جال تو نہیں بچھایا لیکن سٹرکچر کی صورتحال بہتر ہے.
ملک کے مضبوط چیمبر آف کامرسس میں شمار ہوتا ہے گوجرانواکہ چیمبر آف کامرس کا
سپر ایشاء سٹیزن جی ایف سی اور پشاور زلمی والے جاوید آفریدی سمیت کئی بگ فشز اسی چیمبر میں بیٹھے پالیسی سازوں سے ساز باز کرتے پائے جاتے ہیں-
مضمون طویل سے طویل تر ہوتا جارہا ہے آپ کی بوریت کا خیال نہ ہوتا تو ڈھول سپاہیوں کے کینٹ اور تقسیم سے پہلے کے پرانے بازاروں میں بھی لے چلتی-ابھی کے لیے بس یہ ہی-
ہاں یاد آیا اگر آپ شہر میں آئیں اور الریاض کی فش ناصر کی چکن کڑاہی خضر کا باربی کیو نہ کھائیں فوڈیز کے گرلڈ سینڈویچز نہ کھائیں تو بتا دیں تعزیت کرنے کب کہاں آجاؤں؟
اور اگر آپ برگر ہیں تو بھی بے دھڑک آئیے سارے مشہور فوڈ چینز کے آؤٹ لٹس ہیں ادھر-بولے تو کھانے سے نہیں چوکتے ہم-

Wednesday 24 January 2018

آج کے کنسنٹریشن کیمپس


ٹورازم کی کسی سائٹ پر تصویریں دیکھ رہی تھی۔ موسٹ وزٹ پلیسسز۔۔ میونخ، نیاگرا فال،برج خلیفہ، تاج محل، کنسنٹریشن کیمپس۔۔


کنسنٹریشن کیمپس۔۔۔ خود سے پوچھا سیریسلی۔۔ لوگ کنسٹرکشن کیمپس بھی دیکھنے جاتے ہیں کیا ؟
کیا دیکھتے ہوں گے لوگ وہاں جا کر؟ انسان کی بے بسی۔۔بے اختیاری یا انسان کا اختیار، انسان کی رعونت؟
سوال نے سوچ پر لگی گرہ کھول دی۔ خیال کی رو بھٹکی تو کنسٹرکشن کیمپس میں جا ٹھہری۔
چھوٹے پتھروں والا رستہ جہاں پر پیروں کے نشان آنے والے وقتوں کے لیے عبرت بن گئے۔



ایک کمرے میں گھٹن تھی بہت گھٹن۔ کسی نے بتایا یہ گیس چیمبر تھا۔ یہاں لوگوں کو سفوکیٹ کر کے مار دیا جاتا تھا۔ نصف صدی گزر جانے کے باوجود یہاں سے گھٹن نہیں جاتی۔ من میں کسی نے چٹکی بھری۔ سنتی ہو ؟ یہ یہاں سے گھٹن ختم کرنا چاہتے ہیں۔ انسانوں کو سفوکیٹ کرکے مارنے سے گھٹن ختم ہوتی ہے کیا ؟
جواب دیا اب تو نہیں مارتے نا۔۔ اب تو مہذب ہوگئے ہیں۔
جوابی سوال آیا نہیں مارتے کیا؟ اب سفوکیٹ نہیں کرتے کیا؟ اس سے پہلے کہ تڑاخ سے کہہ دیتی، نہیں، اس دوست کا خیال آیا وہ جس کی بات سننے والا کوئی نہ تھا۔ جس کے ہر سوال پہ ماں گھر بچانے کا مشورہ دیتی اور محرم راز کو گھر سے نکالنے کی دھمکی۔
اس کی آنکھوں کی گھٹن نے مجھے مار دیا تھا۔
جب میں نے کہا رب آسانی کرے گا۔ تو اس کی سرد آنکھوں نے میرے یقین کو اندر تک منجمند کردیا تھا۔



خاموشی سے سر جھکا کر ایک اور عمارت کی طرف بڑھی۔ وہ کمزوروں (بچوں اور عورتوں) کی جیل تھی۔ اس پر تو خود ہی ہنس دی۔ بھلا کمزوروں کے لیے کوئی آزادی بھی ہوتی ہے کیا؟
گائیڈ کہنے لگا یہاں نوزائیدہ بچوں پر تجربے کیے جاتے تھے۔ روانی میں پوچھ بیٹھی کیسے تجربے؟
اس نے عجیب نظروں سے دیکھا۔ اور کہنے لگا کہ نوزائیدہ بچہ کتنے دن بغیر خوراک کے رہ سکتا ہے وغیرہ۔
دل حلق میں آکر پلٹا۔۔۔ یا الہی تو رزاق  ہے۔  اپنے بندے کی اس جرات پر زمین کیوں نہ الٹا دی تونے۔؟
یہ کیسی بربریت تھی ربا؟
اندر کسی نے دہائی دی۔۔ کیا یہ  بربریت رک گئی ہے ؟
ذہن میں وہ تیس بتیس سالہ کڑیل جوان آیا جو پھوٹ پھوٹ کر رو دیا تھا۔ یہ کہتے ہوئے میں ہار گیا ہوں۔
پوچھنے سے پہلے ہی گویا ہوا۔ پانچ دن کا بچہ نرسری میں ہے۔ دو دن کا تھا بیوی کا باپ گھر چھوڑ گیا تھا۔ شادی کے بعد الگ رہنے لگا تھا۔ اب ماں اور بہنیں اس چڑیل کی اولاد نہیں پالنا چاہتیں۔ آج دفتر سے واپس آیا تو بچہ نیم جاں سا پڑا تھا۔ ہلانے جلانے پر ہلچل نہیں ہوئی تو بھاگم بھاگ ہسپتال لایا ہوں۔ ڈاکٹر کہتا بچہ پندرہ بیس گھنٹوں سے بھوکا ہے۔
اس چھوٹے بچے کے جسم پر تجربے کے نشان تھے۔ وہ لیبارٹری ریٹس سا چھوٹے کاٹ میں تنہا پڑا کنسنٹریشن کیمپس کے ہونے کا ثبوت تھا۔



میرا جی چاہتا ہے کسی دن کسی منظر کی گہرائی میں مجھے تو ملے۔ اس دنیا سے پرے اور اُس دنیا سے پہلے۔ میں تجھ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ تجھے بتانا چاہتی ہوں تو صرف بے اختیاروں کو ہی یاد ہے۔ اختیار والے نہیں ڈرتے۔ نہ تجھے یاد کرتے ہیں۔



کسی زندہ لاش کی طرح وہاں جا پہنچی۔ جہاں لاغر قیدیوں کو کھائی میں گرایا جاتا تھا یا پھر جنگل میں چھوڑ دیا جاتا تھا مرنے کے لیے۔
روہنگیا کے سارے لوگ میرے اردگرد جمع ہوگئے بھوک پیاس کی شدت سے لاغر و کمزور۔ لاشوں کی طرح جنگلوں میں لیٹے۔ اور کشتیوں میں۔بھر کر سمندر کی کھائی میں گرنے کی طرف رواں۔
وہ شامی بچہ بھی سکرین پر آیا جسے سمندر نے اگل دیا تھا۔اور وہ جو کرسی پر بیٹھا درزیدہ نگاہوں سے دنیا کو دیکھتا تھا۔
کسی کو کہتے سنا کہ آزادی بڑی نعمت ہے جنگی قیدیوں اور مفتوح قوموں کی کوئی مرضی کوئی پسند اور کوئی رائے نہیں ہوتی۔ یہ ہم آپ تو خوش قسمت ہیں کہ آزادی کے عہد میں جی رہے ہیں۔
من میں جلتے شعلوں پر پٹرول کا کام کر رہی تھی یہ تقریر۔
ہم آپ صرف آزادی کی فوٹو کاپی میں جی رہےہیں آزادی میں نہیں۔
ابھی بھی یہاں آپکی کوئی مرضی کوئی پسند کوئی رائے نہیں ہے۔
سوچ کے پردے پر آئی بی اے کی وہ گریجویٹ لہرائی جس نے فل برائٹ ڈالر شپ جیتا تھا اور ماں نے دوپٹہ پیروں میں رکھ کے امریکہ پلٹ دلہا کے لئے ہاں کروالی تھی۔
اس سے کہا تو کیا ہوا وہاں پڑھ لینا۔ تلخی سے کہنے لگی اگر اسے کرئیر وومن چاہیے ہوتی تو اس سماج میں کرتا تلاش۔ یہاں سے تو گھریلو ملازمہ جا رہی ہے۔
پھر کہا کیا ہوا اپنا ہی تو گھر ہے۔ جواب آیا۔جب یہ اپنا نہ ہوا تو وہ کیسے ہوگا۔
جب میں اس سے ملی تھی تو اس کے چہرے پر مفتوح قوموں سا مجروح تاثر تھا۔
اس کو حرف تسلی دینے کے لیے کچھ کہنا چاہا تو رسان سے کہنے لگی۔ اب تسلی دلاسے مرھم دوا دعا کچھ نہیں چاہیے۔
کہا ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہوتی ہے۔
وہ ہنسنے لگی۔ اس کی ہنسی میں اتنی وحشت تھی جیسے کوئی پاگل جنونی رونے کے فورا بعد ہنستا ہو یا ہنستے ہوئے رو دیتا ہو۔ گھبرا کر کہا مت ہنسو۔
اور وہ کندھے اچکا کر چل دی۔
مجھے اقبال کے اس سوال کے گرداب میں چھوڑ کر کہ کیا تجھ کو راس آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟



میرا جی چاہتا ہے کسی دن کسی منظر کی گہرائی میں مجھے تو ملے۔
اس دنیا سے پرے اور اُس دنیا سے پہلے۔ میں تجھ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ تجھے بتانا چاہتی ہوں تو صرف بے اختیاروں کو ہی یاد ہے۔ اختیار والے نہیں ڈرتے نہ تجھے یاد کرتے ہیں۔
بے بس جب بے بسی سے گھبرا جاتے ہیں تو تجھے پکارتے ہیں۔ تو جانتا ہے میرے کرب کو میرے جیسوں کے کرب کو۔ بے بسوں کے درد کو۔ تو نے بھی تو اختیار والوں کے لہجے میں بولتے فرعون سنے ہیں۔ تو بھی تو روز اپنے عاجزوں کو دنیا میں جہنم بھگتتے دیکھتا ہے اور تو نیل میں کھلتا رستہ بند نہیں کرتا۔ تیرے اختیار میں اور بندوں کے اختیار میں فرق تو رہنا چاہیے۔۔
تو کیوں نہیں زمین الٹا دیتا۔ کیا سارے سوال حشر کے لیے اٹھا رکھے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو پھر حشر کیوں نہیں اٹھاتا۔۔



مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے۔

Wednesday 17 January 2018

یزید ابھی زندہ ہے


ابھی یزید زندہ ہے۔
آج بھی زینب کے سر پہ چادر نہیں ہے۔
آج بھی زینب سر بازار ہے تنہا۔
آج بھی لوگوں میں کرب و بلا برپا ہے۔
آج بھی زیاد سے مکروہ چہرے
یزدیت کی حمایت میں
اگر مگر چونکہ چنانچہ
تیری میری کرتے ہیں۔
سنو۔
تم کوفہ کے باسی لوگو۔
سیاست اور سیادت تم ہی رکھ لو آج۔
یہ زینب میری ہے۔
اسے میں اون کرتی ہوں۔
تم سے بےضمیروں کو۔
زینب کی چادر کی حرمت کا پاس کیسے ہو۔
تم تو یزیدی لشکروں کے ہرکارے ہو۔
خط و کتابت کرتے ہو۔
قلم کی حرمت بیچ کر 
اپنی ہوس کے جہنم بھرتے ہو۔
تم زینب کے حقدار ہو بھی نہیں سکتے

Tuesday 16 January 2018

تازہ کلام


"تازہ کلام۔"
جی چاہتا ہے سورج پھاڑ کے دیکھوں
اندر سے یہ کیسا ہے۔
جی چاہتا ہے چندا توڑ کہ دیکھوں۔
ٹوٹ کے چندا کیسا ہے
جی چاہتا ہے دھنک اوڑھ کے دیکھوں۔
رنگ میں کسی کے خود کا رنگنا کیسا ہے۔

۔

#نوٹ جو اس کو شاعری نہ مانے وہ بھی کافر۔

سارے مل کے بولیں


بسم الرحمن الرحیم
کتنی دلکشی ہے تمہاری باتوں میں۔
کیا ہی اعلی نصیب ہیں اس کمینے کے جس کے عقد میں ہو تم۔
حشر میں دیکھیں گے تمہیں۔
سلامت رہو۔

شکریہ بھائی آپ جیسے نفیس بھائی نہ ہوتے تو فیس بک پر کبھی نہ رہ پاتی خدا آپ کو اجر دے ۔
حزاک اللہ۔

ارے۔۔۔۔یہ کیا غیروں والی بات کہی۔۔۔۔ڈھیروں پیار تمہارے لئے خوش رہو تصویر میں پیاری لگ رہی ہو سادگی و پر کاری کا نمونہ۔۔۔کہاں ہوتی ہیں آجکل اتنی سادہ و نیک لڑکیاں۔ بس سلامت رہو۔۔۔

بس مجھے میک اپ نہیں پسند۔۔ آپ کا بہت شکریہ۔
جزاک اللہ۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

سارے مل کے بولیں سبحان اللہ
ڈاؤلینس لیا تو بات بنی۔۔

ڈی ایف ایم


آج کل سوشل میڈیا پرنیا رواج چل نکلا ہے ایک انتہائی پارسا آئڈی جی بالکل پارسا،پوسٹ لگاتی ہے کہ وہ ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا دوستوں میں بیٹھا تھاافطار ڈنر پر گیا تھا محفل میلان میں حاضر تھا کہ اچانک ایک عدد ان سے بھی متقی شخص کو شیطان اپنے چنگل میں پھنسا لیتا ہے اور وہ کسی لڑکی کو کال اور بعدازاں وڈیو کال کرنے لگتا ہے۔
پھر اپنے انتہائی پرہیز گار دوستوں کو بتاتا ہے کہ لڑکیاں تو اسے دن رات صبح دوپہر شام آٹھوں پہر کالز اور وڈیو کالز کرتی رہتی ہیں۔ جن پر وہ یعنی لڑکیاں لڑکوں کی ہر "فرمائش" پوری کرتی ہیں۔
اصل پوسٹ اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔
پیاری بہنوں پیاری بیٹیوں جیسے خوبصورت الفاظ سے۔ پھر صاحب پوسٹ اپنی پارسائی کے بعد یہ بتاتے ہیں کہ لڑکیاں لڑکوں کے جال میں پھنس کر اپنا حال مستقبل ماضی تباہ کر دیتی ہیں۔

تو پوچھنا یہ تھا کہ وہ جو فون کرتا سنتا ہے لڑکیوں کو اس پارسائی کے مجسم پیکر کے لئے کوئی فتوی موجود ہے یا نہیں؟ اور ایسا شخص آپ کی مخفل میں اتنا کمفرٹیبل کیسے ہے ؟ اور کیا مرد کی کوئی عزت نہیں ہوتی؟ وہ کہیں پر بھی منہ مارتا پھرے آپ کے سامنے دھڑلے سے اعتراف کرے آپ کے دل میں ان کے لئے ان کی دنیا و آخرت کے لئے درد کیوں نہیں جاگتا؟ کیا آپ متعصب ہیں ؟ یا جاہل ہیں۔؟ یا آپ کے نزدیک عورت کا گناہ گناہ اور آپ کی جنس کا گناہ بھٹکنا ہے ؟
اگر آپ سب کا رب پر یقین ہے تو اس کا خوف کیا کریں گناہگار کی مجرم کی جنس نہیں اس کا گناہ اس کا جرم دیکھا کریں اور اس کے جرائم پر تبرہ کیا کریں ۔ نہ کہ جنس کی تخصیص۔
اپنے بیٹوں کو آنکھیں جھکا کر چلنا سیکھائیں تاکہ آپ کی بیٹیاں سر اٹھا کر جی سکیں۔

نوٹ اس پوسٹ پر اگر کسی نے عورت کی عزت اور مرد کی عزت کو الگ الگ خانوں میں بانٹا تو میری طرف سے اسے ڈی ایف ایم۔

زینب ہماری سفارش کردو




بار بار فیملی کی ساری چھوٹی بچیاں نظروں کۓ سامنے آرہی ہیں جو کبھی صبح سکول جاتے ہوئے اپنے ابا سے جھگڑتی ہیں۔ کبھی پسند کی چیزیں نہ ملنے پر کبھی بہن بھائیوں سے معمولی تکرار پر۔



چار سالہ آئبہ یاد آئی جو سکول سے واپس آکر سارا دن سائیکل چلاتی رہتی ہے اگر پوچھیں تو کہتی ہے سائکلنگ از گڈ فار ہیلتھ۔ جو کبھی ماں کو انفارم کرتی ہے کہ مجھے ڈاکٹر نے بھنڈیاں کھانے سے منع کیا ہوا ہے۔اور کبھی کہتی روز نوڈلز نہ کھاؤں تو مجھے الرجی ہوجاتی ہے۔ اس کو الرجی کا مفہوم ہم دانستہ نہیں بتاتے کہ اس کا معصوم ذہن پھر نوڈلز کے حق میں اور کیا دلیل سوچے گا۔



آٹھ سالہ عدن بھی یاد آرہی ہے بار بار۔ جو سوچتی آنکھوں میں بے شمار سوال لئے مگن چلتی پھرتی ہے۔ کریدنے پر پوچھتی ہے۔ جنت میں اللہ میاں الگ الگ گھر کیوں دیں گے۔ہم سب جنت میں اکھٹے کیوں نہیں رہ سکتے۔ اور کبھی کہتی ہے میرا دل چاہتا ہے میں روبوٹک ہارٹ این برین بنا لوں تاکہ کوئی مر نہ سکے۔ اس کے اندر موجود کھونے کے اس خوف کا کوئی علاج نہیں ہوتا میرے پاس۔ میں تو خود کھو دینے کے خوف سے ہول جاتی ہوں۔



پانچ سالہ ہانیہ ہاتھ میں سٹک پکڑے سیڑھیاں اترتی ہے۔ پوچھا ہانی سٹک کیوں پکڑ رکھی ہے۔ تو بڑی بڑی آنکھیں مزید پھیلا کر کہتی ہے آنا اوپر بھوت آگیا تھا۔ میں نے اس چمتکاری ڈنڈے سے اسے مار بھگایا۔ اس کی زندگی میں۔چمتکار کی حیثیت پر جو بے ساختہ مسکراہٹ آتی ہے وہ مجھے اسے حقیقت بتانے سے روکتی ہے۔سوچتی ہوں کچھ دیر تو معجزوں پر یقین رہے اس کا۔



تین سالہ عدیفہ کہتی ہے میں خود بڑی کیوٹ پیاری ہوں۔
اس سے سچی بات شائد کوئی نہیں پر اس کا بے نیاز انداز دیکھنے کے لئے میں۔جھٹلاتی رہتی ہوں اسے۔
اور پھر ایمل۔۔جو ایمل بلانے پر غصے میں کہتی ہے۔۔۔نو آنا سے جنؤ (جگنو)۔ میں صرف یہ جملہ سننے کے لئے کئی بار ایمل کہہ کے پکارتی ہوں۔
کہ ایمی چھوٹی سی انگلی کھڑی کر کے آنکھیں نکال کر ڈانٹے کہ آپ ایمل نہیں بلا سکتیں۔



کل سے سینکڑوں بار آنکھیں خشک کرتے یہ ہی خیال بار بار آرہا ہے کہ زینب بھی ایسے ہی کسی کا جگنو ہوگی۔ کوئی پیار سے تتلی کہتا ہوگا تمہیں۔ تھی بھی تو تتلی جیسی نازک بے ضرر۔
میں تم سے کیا کہوں کتنے کھوٹے کتنے چھوٹے حرف ہیں میرے۔



لیکن میں پھر بھی ان سے کچھ سطریں گھسیٹنا چاہتی ہوں۔ میں چپ رہ کے ظالم کی خاموش حمایتی نہیں بن سکتی۔
سنو! زینب میں یہ نہیں کہوں گی کہ تم رب سے میری شکایت نہیں کرنا۔۔۔ میں یہ کہنے کا حوصلہ ہی نہیں دے پاتی خود کو۔
میں بس یہ چاہتی ہوں جب تم سب کی شکایت لگاؤ تو پلیز میرا نام کہیں بہت سے ناموں کے درمیان اچانک نہ لینا اور پھر اگلی بات یا اگلا نام شروع کر لینا۔ دیکھو مجھے پتا ہے رب چوکتا نہیں ہے۔ پر ایسے شائد اس کے غضب کا کم ترین اور ادنی درجہ مجھ تک پہنچے۔ میں کیا کروں میں اسوقت بھی سیلف سینٹرڈ ہو رہی ہوں۔ مجھے یہ خدشہ ہے کہ کہیں تم جنت میں رسول خدا کو میری شکایت ہی نہ کردو۔ دیکھو زینب میں تمہاری مجرم ہوں۔ تم مجھ سے حشر میں بدلہ لے لینا۔۔تم اس دن میری دو چار جو ٹوٹی پھوٹی نیکیاں ہیں وہ رکھ لینا۔



تم ابھی مت کہنا رب کے حبیب کو کچھ۔ میرے حوالے سے ایسی اذیت ناک بات ان تک نہ پہنچاؤ پلیز۔
دیکھو میرے پاس بھی تو فقط اس شفاعت کا آسرا ہی ہے نا۔ تم تو اتنی اچھی ہو معصوم ہو رب کے پاس ہو جنت میں ہو۔۔ تم جو اگر میرا نام کملی والے کہ سامنے نہ لو تو کیسا احسان ہوگا تمہارا مجھ پر۔
سنو! میں جب تمہارے جتنی تھی نا تو میں نے کتاب میں پڑھا تھا کہ رسول خدا اس آدمی وہ جس نے بیٹی کو زندہ دفنایا تھا اس کی کتھا سن کر ہچکیوں سے رونے لگے تھے۔
سنو زینب میرے جرم پر رسول خدا کو صدمہ پہنچے گا بہت صدمہ۔ میں تو امتی ہوں۔ دیکھو میں تم ہر بدلہ خود سے ہی دینے کے لئے تیار ہوں۔ تم میرا نام مت بتانا۔۔



اچھا چلو ایک معاہدہ کر لیتے ہیں۔۔۔ تم تو زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو۔ تم جنتوں کی باسی بھی ہو۔
تم حشر کی صبح میری شکایت کردینا۔ اس روز تو بالآخر مجھ سے ہر عاصی کو بھگتنا ہی پڑے گا اپنا ہر جرم۔ تم اس دن میرا نام بتا دینا۔ تاکہ حشر کی صبح تک تو کملی والے اور میرے جرائم کے درمیان حجاب رہے۔
اچھا اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھر تمہاری مرضی۔ عاجز کی زور زبردستی تو نہیں چلتی نا۔ مجرم کی مرضی بھی نہیں چلتی۔ میں تم جو چاہے سزا دلوا لو رب سے۔ ہم سب ہی مجرم ہیں تمہارے۔



بس تم رب سے ایک سفارش کردو۔ یہ جو تم سی کئی جگنوؤں میرے آس پاس ہیں۔ جن کو رحمت کی صورت میری بستی میں اتارا ہے تم رب سے ان کے لیے عافیت و امان مانگ لو۔۔
یا پھرعمر فاروق سا کوئی بابا مانگ لو۔ جو سر بازار رب کی قسم کھا کر کہے۔۔ اگر قتل میں ساری بستی ملوث ہوئی تو عمر پوری بستی مٹا دے گا۔ اور اگر فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر روز حشر جوابدہ ہوگا۔ اور جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر گلیوں میں دیوانہ وار پھرتا ہو کہ کوئی راہزن چمن کے پھول نہ نوچ سکے۔
یا پھر کوئی حسین ہی مانگ لو ہمارے لیے زینب۔ کہ جب تک حسین زندہ رہے کوئی کرب و بلا کے موسم میں بھی زینب کے سر سے چادر نہ اتار سکے۔



نہیں تو ہم یونہی روز کوفہ میں جیتے کربلا میں مرتے رہیں گے۔
زینب خدا سے ہماری سفارش کروگی نا؟